آفاتِ ارضی و سماوی کے اسباب اور اُن کا حل

آفاتِ ارضی و سماوی کے اسباب اور اُن کا حل

مفتی محمد راشد ڈسکوی

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’خشکی اور تری میں فساد اُن (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں ،تاکہ (ﷲ)اُنہیں بعض (برے) اَعمال کا مزا چکھا دے جو اُنہوں نے کیے ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔ ‘‘ (سورۃ الروم:۴۱)’’خشکی سے مراد‘‘ انسانی آبادیاں اور ’’تری سے مراد‘‘ سمندر، سمندری راستے اور ساحلی آبادیاں ہیں۔ ’’فساد‘‘ سے مراد ہر وہ بگاڑ ہے، جس سے اِنسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن و سکون تہ و بالا ہو جاتا ہو، اور اُن کے عیش و آرام میں خلل واقع ہو، اِس لیے اِس (فساد)کا اِطلاق معاصی وسیئات پر بھی صحیح ہے کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں، اللہ کی حدوو کو پامال اور اَخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں اور قتل وخوںریزی عام ہوگئی ہے اور اُن ارضی وسماوی آفات پر بھی اِس (فساد) کا اِطلاق صحیح ہے جو اللہ کی طرف سے بطور سزا و تنبیہ نازل ہوتی ہیں، جیسے: قحط، کثرتِ موت، خوف،وبائیں ،زلزلہ اور سیلاب وغیرہ۔

مطلب یہ ہے کہ جب اِنسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنالیں تو پھر مکافاتِ عمل کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے اَعمال و کردار کا رُخ برائیوں کی جانب پھر جاتا ہے اور زمین فساد سے بھر جاتی ہے، اَمن و سکون ختم اور اُس کی جگہ خوف و دہشت، لوٹ ماراور قتل وغارت گری عام ہو جاتی ہے ، اِس کے ساتھ ساتھ بعض دفعہ آفاتِ ارضی و سماوی کا بھی نزول ہوتا ہے۔ مقصد اِس سے یہی ہوتا ہے کہ اِس عام بگاڑ یا آفاتِ الٰہیہ کو دیکھ کر شاید لوگ گناہوں سے باز آجائیں، توبہ کرلیں اور اُن کا رجوع اللہ کی طرف ہوجائے۔ اِس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعتِ الٰہی پر قائم ہو اور اللہ کی حدیں نافذ ہوں، ظلم کی جگہ عدل کا دور دورہ ہو، وہاں اَمن و سکون اور اللہ کی طرف سے خیر وبرکت کا نزول ہوتا ہے۔

جس طرح حضرت ابو ہریرہ ؓکی حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’زمین میں اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا وہاں کے انسانوں کے لیے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، : ۲۵۳۱)

اسی طرح یہ حدیث ہے: ’’ جب ایک بدکار آدمی فوت ہو جاتا ہے تو بندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں کرتے، شہر بھی اور درخت اور جانور بھی آرام پاتے ہیں۔‘‘(صحیح بخاری،: ۶۵۱۲)

آیتِ مبارکہ کے پیغام کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ موجودہ صورتِ حال پر غور کر لے کہ فی زمانہ بے حیائی عام ہونا،ناپ تول میں کمی کرنا، لوگوں کے اَموال پر جبری قبضے کرنا،زکوٰۃ نہ دینا،جوا اورسود خوری وغیرہ، غرض وہ کون سا گناہ ہے جو ہم میں عام نہیں ،اور شاید اُنہی اَعمال کا نتیجہ ہے کہ آج کل لوگ اَیڈز، کینسر اور دیگر جان لیوا اَمراض میں مبتلا ہیں، ظالم حکمران اُن پر مقرر ہیں، بارش رُک جانے یا حد سے زیادہ آنے کی آفت کا یہ شکار ہیں، دشمن اُن پر مُسلَّط ہوتے جارہے ہیں، قتل و غارت گری اُن میں عام ہو چکی ہے، زلزلوں، طوفانوں اور سیلاب کی مصیبتوں میں یہ پھنسے ہوئے ہیں، تجارتی خسارے اور ہر چیز میں بے برکتی کا رونا رو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا کرے اور اپنی بگڑی حالت سدھارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہاں بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کافروں کے ممالک جہاں کفر و شرک اور زنا و گناہ سب کچھ عام ہے، وہاں فساد کیوں نہیں ہے؟ تو اِس کے دو جواب ہیں : اول یہ کہ کفار کو دنیا میں کئی اعتبار سے مہلت ملی ہوئی ہے، لہٰذا وہ اُس مہلت سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ فساد اور بربادی صرف مال کے اعتبار سے ہی نہیں ہوتی، بلکہ بیماریوں اور ذہنی پریشانیوں بلکہ اور بھی ہزاروں اعتبار سے ہوتی ہے، اب ذرا کفار کے ممالک میں جنم لینے والی اور پھیلنے والی نئی نئی بیماریوں کی معلومات جمع کرلیں، یوں ہی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ پاگل خانے، ذہنی مریض، دماغی سکون کی دواؤں کااستعمال، دماغی اَمراض کے مُعا لِجین، ذہنی مریضوں کے اِدارے اور نفسیاتی ہسپتال بھی اُنہی کفار کے ممالک میں ہیں اور اِسی طرح دنیا میں سب سے زیادہ طلاقیں ، ناجائز اولاد، بوڑھے والدین کو اَولڈ ہومز میں پھینک کر بھول جانے کے واقعات ،یوں ہی دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیاں بھی اُنہی ممالک میں ہیں ، جو ظاہرا ً تو بڑے خوشحال نظر آتے ہیں ،لیکن اندر سے تباہی کا شکار ہیں۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں انسانوں کی بداعمالیوں کے سبب حالات بگڑنے کا تذکرہ بہت تفصیل سے سامنے آتا ہے، ذیل میں احادیث کی روشنی میں بلائیں اُترنے کے اسباب اور احادیث کی روشنی میں ہی ان آفات کو دور کرنے کے حل ذکر کیے جاتے ہیں:

جب مالِ غنیمت کو اپنی ذاتی دولت سمجھا جانے لگے۔ امانت کو مالِ غنیمت سمجھا جانے لگے، یعنی امانت کو ادا کرنے کی بجائے خود استعمال کر لیا جائے۔ …زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے، یعنی: خوشی سے دینے کی بجائے ناگواری سے دیا جائے …علم‘ دین کے لیے نہیں، بلکہ دنیا کے لیے حاصل کیا جانے لگے …آدمی اپنی بیوی کی فرماں برداری اور اپنی ماں کی نافرمانی کرنے لگے …دوست کو قریب اور باپ کو دور کرنے لگے … مسجدوں میں کھلم کھلا شور ہونے لگے …قوم کی سرداری فاسق کرنے لگے۔ …قوم کا سربراہ‘ قوم کا سب سے ذلیل آدمی بن جائے۔ …آدمی کا اکرام اس کے شر سے بچنے کے لیے کیا جانے لگے۔ … گانے والی عورتوں اور ساز وباجے کا رواج ہونے لگے۔ …شراب کھلے عام پی جانے لگے۔ …اُمت کے بعد والے لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں۔

جب یہ کام ہونے لگ جائیں تواُس وقت انتظار کرو، ’’ سرخ آندھی کا، زلزلے کا، زمین میں دھنس جانے کا، آدمیوں کی صورت بگڑ جانے کا، اور آسمان سے پتھروں کے برسنے کا، اور ایسے ہی مسلسل آفات اور بلاؤں کے آنے کا انتظار کرو جس طرح کسی ہار کا دھاگا ٹوٹ جائے اور اس کے موتی پے در پے جلدی جلدی گرنے لگیں۔

جب کسی قوم میں علیٰ الاعلان بے حیائی ہونے لگے، تو ان میں طاعون پھیل جاتا ہے، اور ایسی بیماریاں جن کا پہلے نام ونشان نہ تھا۔ (سنن ابن ماجہ)… جب قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو ان کے درمیان قحط سالی، حالات کی سختیاں اور بادشاہوں کے ظلم وستم عام ہو جاتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)… جب کوئی قوم زکوٰۃ دینا چھوڑ دیتی ہے تو ان سے بارشیں روک لی جاتی ہیں، اگر زمین پر چوپائے /جانور نہ ہوں تو بارش کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ برستا۔ (سنن ابن ماجہ)… جب لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے عہد وپیمان کو توڑ دیتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے ان سے چھین لیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ)… جب کسی قوم میں رشوت کی وبا عام ہو جاتی ہے،تو اس پر رعب مسلط کر دیا جاتا ہے۔(مسند احمد)… جس قوم کے حکمران اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے نازل کیا ہے، اُسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ اُن میں پھوٹ اور اختلا ف ڈال دیتاہے۔ (سنن ابن ماجہ)… جب اُمت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسلام کی ہیبت اس کے دلوں سے نکل جائے گی۔ (جامع الصغیر)… جب امت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی۔ (جامع الصغیر)… جب امت آپس میں گالی گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ کی نگاہ سے گر جائے گی۔ (جامع الصغیر)

قرآن وحدیث میں ان بلاؤں اور آفات کو دور کرنے کے اعمال واَسباب بھی مذکور ہیں، ذیل میں اشارۃً ان کا ذکر کیا جاتا ہے:

1-توبہ واستغفار کرنا:۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: ’’جو شخص پابندی سے استغفار کرتا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، ہر غم سے اُسے نجات عطا فرماتا ہےاور اُسے ایسی جگہ سے روزی عطا فرماتا ہے، جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘(سنن ابو داؤد، الرقم: ۱۵۱۸)

2-تقویٰ اختیار کرنا :۔قرآن مجید میں تقویٰ اختیار کرنے والے کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: ’’جوکوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو اللہ اس (کا کام بنانے) کے لیے کافی ہے۔‘‘(سورۃالطلاق: ۲،۳)

3-صدقہ دینا:۔حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’صبح سویرے صدقہ نکالا کرو، کیونکہ بلائیں اس سے آگے قدم نہیں بڑھا سکتیں۔‘‘ (المعجم الاوسط، : ۵۶۳۹) اسی طرح حضرت انس ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ ستر بلاؤں کو روکتا ہے جن میں سے سب سے چھوٹی بلا کوڑھ اور برص ہے۔‘‘(تاریخ بغداد )

4- ’’لا حول ولاقوۃ إلا باللہ‘‘ کی کثرت:۔حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا : ترجمہ: ’’لاحول ولاقوۃ إلا باللہ‘‘ کثرت سے کہا کرو، کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔‘‘

حضرت مکحول ؒ (تابعی) نے فرمایا : جو شخص یہ کہے ’’لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ وَلاَ مَنْجَاَ مِنَ اللہِ إِلَّا إِلَیْہِ‘‘ یعنی: ضرر و نقصان کو (دفع کرنے کی)قوت اور نفع حاصل کرنے کی طاقت ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات اسی (کی رضا ورحمت کی توجہ) پر منحصر ہے، تو اللہ تعالیٰ اس سے ضرر و نقصان کی ستر قسمیں دور کردیتا ہے، جس میں ادنیٰ قسم فقر و محتاجی ہے۔ (سنن الترمذی: ۳۶۰۱)

ایک اور حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ پڑھے تو یہ ننانوے (دنیاوی واُخروی) بیماریوں کی دوا ہے جن میں سے ادنیٰ بیماری (دنیوی واخروی ) غم ہے۔ ‘‘(المستدرک علیٰ الصحیحین: ۱۹۹۰)

5-آیتِ کریمہ کو کثرت سے پڑھنا:۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’حضرت ذوالنون ؓ(اللہ کے پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام ) جب سمندر کی ایک مچھلی کا لقمہ بن کر اس کے پیٹ میں پہنچ گئے تو اس وقت اللہ کے حضور میں اُن کی دعا یہ تھی: ’’لاَ إِلٰہَ إِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ ارشاد فرمایا: ’’ جو بھی مسلمان بندہ اپنے کسی معاملے اور مشکل میں اللہ تعالیٰ سے ان کلمات کے ذریعے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اسے قبول ہی فرمائے گا۔‘‘ (سنن الترمذی، : ۳۵۰۵)

قرآن وحدیث میں کہیں ان کلمات کو مخصوص تعداد میں پڑھنے کا تذکرہ نہیں، البتہ بزرگوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں مختلف اعداد (۳۱۳ وغیرہ) بتائے ہیں، اُن میں سے کسی بھی عدد کو اختیار کیا جاسکتا ہے، لیکن قرآن وحدیث سے ثبوت کے بغیر کسی عدد کو مستحب نہیں کہا جاسکتا۔

6-درود شریف کی کثرت کرنا: درود شریف کی کثرت پر ارشادِ نبوی ﷺ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ساری فکروں کو ختم فرما دےگا اور تمہارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

7-دعاؤں کا اہتمام کرنا:۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا تو اُس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے، اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ اس سے عافیت کا سوال کیا جائے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے ان حوادث میں بھی جو نازل ہو چکے ہوں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، پس اے خدا کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔‘‘ (سنن الترمذی، : ۳۵۴۸)

ارشاد ربانی ہے: ’’اور ایوب ( علیہ السلام )کی اس حالت کو یاد کرو، جبکہ اُنہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والاہے، تو ہم نے اُن کی دعا قبول کرلی اور جو اُن کو تکلیف تھی وہ دور کردی اور اُن کو بال بچے بھی عطا فرمائے اور اپنی مہربانی کے ساتھ اتنے ہی اور (بخشے)، تاکہ سچے بندوں کے لیے سببِ نصیحت ہو۔‘‘(سورۃالانبیاء: ۷۸، ۷۹)

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’کیا میں تمہیں وہ علم بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچاؤ کرے، اور تمہیں بھرپور روزی دلائے، وہ یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دعا کیا کرو، رات میں اور دن میں، کیونکہ دعا مؤمن کا خاص ہتھیار یعنی: اس کی خاص طاقت ہے۔‘‘ (مسند ابی یعلیٰ،: ۱۸۱۲)

8- اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اگر تم شکر گزار بنو اور (صحیح معنی میں) ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر آخر کیا کرے گا؟ اللہ بڑا قدر دان ہے، اور سب کے حالات کا پوری طرح علم رکھتا ہے۔‘‘(سورۃ النساء: ۱۴۷)

Share This:

اسلامی مضامین

  • 13  اپریل ،  2024

مفتی محمد راشد ڈسکویآج کل ہر طرف مہنگائی کے از حد بڑھ جانے کے سبب ہر بندہ ہی پریشان نظر آتا ہے، کسی بھی مجلس میں شرکت کی...

  • 13  اپریل ،  2024

مولانا نعمان نعیمرسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایک بالشت برابر زمین بھی ظلماً لی ، قیامت کے دن اُسے سات زمینوں...

  • 12  اپریل ،  2024

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن...

  • 11  اپریل ،  2024

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ بیچارے غلام اور ملازم...

  • 10  اپریل ،  2024

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے احسان کا شکریہ...

  • 10  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم.حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔ انہوں نے فرمایا :دعا آسمان اور زمین کے...

  • 09  اپریل ،  2024

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب شب قدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ...

  • 09  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے...

  • 09  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہٗ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ...

  • 08  اپریل ،  2024

مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوریآپ کے مسائل اور اُن کا حلسوال: ہمارا گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کاروبار ہے۔ ایک اور شخص ب نئی...

  • 08  اپریل ،  2024

ماہ شوال کے چھ روزے، جو شوال کی دُوسری تاریخ سے شروع ہوتے ہیں، مستحب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:...

  • 08  اپریل ،  2024

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری...

  • 08  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمجناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے، جو شخص عید کے دن تین سو مرتبہ سبحان...

  • 07  اپریل ،  2024

مفتی محمد مصطفیٰحضرت سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے، جب تک وہ روزہ...

  • 07  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو...

  • 07  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:...

  • 07  اپریل ،  2024

مولانا نعمان نعیم’’زکوٰۃ‘‘ اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ قرآن وسنت میں زکوٰۃ کی فرضیت اور فضیلت و...

  • 06  اپریل ،  2024

سید صفدر حسینامام موسیٰ کاظمؒ، حضرت امام جعفر صادقؒ کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ حمیدہ بربریہ اندلسیہ تھیں۔ آپ...

  • 06  اپریل ،  2024

مولانا اطہرحسینیو ں تو اس کارخانۂ عالم کی سب ہی چیزیں قدرت کی کرشمہ سازیوں اور گلکاریوں کے ناطق مجسمے، اسرارورموز کے...

  • 06  اپریل ،  2024

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ کا سہارا لگائے بیٹھے...