خلیفہ اول، سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ

خلیفہ اول، سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ

مولانا محمد قاسم رفیع

خلیفۂ اول ،سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آنحضرت ﷺسے غیر معمولی عشق و محبت کا تعلق تھا۔ اسی تعلق کا ثمر ہے کہ آپ کو آنحضرت ﷺسے وہ نسبتیں حاصل ہوئیں جو آپ کے سوا کسی اور کا مقدر نہ بن سکیں۔ آپ کا مزاج اور طبیعت و فطرت آنحضرت ﷺسے اس قدر مشابہ تھا کہ پہلی وحی نبوت کے نزول کے وقت آپ ﷺکو تسلی دیتے ہوئے ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓنے آپ کے جن اوصاف و کمالات کا ذکر فرمایا ، یہی صفات اور خوبیاں حضرت ابوبکرؓ میں بھی نظر آتی ہیں۔

چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے جب حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا، ابھی مکہ مکرمہ سے پانچ دن کی مسافت پر برک الغماد پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوگئی، اس کے دریافت کرنے پر آپ نے اپنی ہجرت کا مقصد بیان کیا تو ابن الدغنہ نے کہا: ’’تمہارے جیسے شخص کو کیسے شہر بدر کیا جاسکتا ہے؟ تم غریبوں کی مالی امداد کرتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، اپاہجوں کا سہارا ہو اور حق کی طرف سے حوادث کا مقابلہ کرتے ہو۔ پھر ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکرؓ کو اپنی پناہ میںلے لیا اور آپ واپس اپنے گھر تشریف لے آئے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ آنحضرت ﷺسے عمر میں دو یا تین برس چھوٹے تھے اور زمانہ نبوت سے قبل ہی دونوں حضرات آپس میں گہرے دوست تھے، ساتھ رہنے کی بناء پر حضرت ابوبکرؓ آپ ﷺسے اچھی طرح واقف تھے، اس لئے آپ کے نبوت سے سرفراز ہونےکے بعد حضرت ابوبکرؓ کو اسلام قبول کرنے میں ذرا بھی تأمل نہیں ہوا‘ اور بلاجھجک آزاد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لاکر آپ زبانِ رسالت سے ’’صدیقؓ‘‘ کے لقب سے مشرف ہوئے۔ رسول اللہ ﷺنے ایک بار ارشاد فرمایا کہ اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا، لیکن میرا خلیل صرف اللہ تعالیٰ ہے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد پہلے ہی دن سے کارِ نبوت میں آپ ﷺکا ہاتھ بٹانا شروع کردیا تھا۔ آپ کی محنت سے سات غلام و باندیاں حضرت بلال حبشیؓ، حضرت عامر بن فہیرہؓ، حضرت ابوفکیہؓ،حضرت لبینہؓ، حضرت زنیرہؓ، حضرت نہدیہؓ اور حضرت ام عبسؓ جو مسلمان ہونے کے باعث کفار کے ظلم و ستم کا شکار تھے، آزاد ہوئے۔ آپ کے والد حضرت ابو قحافہـ ؓ (جو اس وقت مسلمان نہیں تھے) نے کہا کہ ان عورتوں اور کمزوروں کو آزاد کراکے تمہیں کیا حاصل؟ تمہیں چاہیے کہ تندرست و توانا مردوں پر جود و کرم کرو ،تاکہ وہ بعد میں تمہارے کسی کام آسکیں تو حضرت ابو بکرصدیقؓ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ابا جان!میں تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتا ہوں۔

نیز آپؓ کی تبلیغی و دعوتی جدوجہد سے حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ، حضرت عثمان بن مظعونؓ، حضرت ابو سلمہؓ اور حضرت خالد بن سعید بن العاصؓمسلمانانِ اسلام میں شامل ہوئے۔ یوں حضرت ابوبکرؓ آپ ﷺکے بعد اسلام کے سب سے پہلے مبلغ کا بھی شرف رکھتے ہیں۔

آپؓ کو کئی اور چیزوں میں بھی اولیت و تقدیم حاصل ہے، مثلاًـ: مکہ مکرمہ میں ابن الدغنہ کی پناہ حاصل ہونے کے بعد آپ نے اپنے گھر کے صحن میں اسلام کی سب سے پہلی مسجد، مصلیٰ، جائے نماز کی بنیاد رکھی، جہاں آپ نماز پڑھتے، بآواز بلند تلاوت قرآن کریم کرتے اور روتے جاتے، جسے سن کر وہاں مرد و عورت جمع ہوجاتے اور آپ کی رقت انگیز آواز سے متأثر ہوتے۔ نیز مدینہ منورہ پہنچ کر جب مسجد کے لئے جگہ خریدنے کا مرحلہ درپیش تھا تو حضور اکرم ﷺکے حکم پر آپؓ ہی نے اس قطعہ زمین کی رقم اپنی جیب خاص سے ادا فرمائی اور اسلام کی اجتماعی ضرورتوں کے لئے سب سے پہلا خرچ کرنے کی سعادت پائی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مزاج رسول اور موافق طبع ہونے کا ایک عجیب واقعہ ہے جو حضرت مولانا سید محمد میاںؒ (مؤلف ِ کتب کثیرہ و ناظم جمعیت علمائے ہند) نے اپنے کتابچے ’’تذکرہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ‘‘ میں محفوظ فرمایا ہے، آپ بھی ملاحظہ کیجئے اور اس سے محظوظ ہوئیے: ’’اللہ تعالیٰ کا وصف ہے: ارحم الرحمین (رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا)، رسول اللہ ﷺکا خطاب ہے: رحمۃ للعالمین (تمام جہانوں کے لئے رحمت) صدیق اکبرؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہےـ: ارحم امتی بامتی ابوبکر (ساری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر مہربان اور رحیم ابوبکرؓ ہیں)۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو آپ ﷺکے ہمراہ ہجرت مدینہ کا شرف حاصل ہوا۔ اس سفر میں آپؓ کے عشق رسالت کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ آپؓ حضور اکرم ﷺکے ساتھ یوں بے قرار ہوکر چلتے کہ کبھی دائیںبائیں اور کبھی آگے پیچھے کا دھیان رکھتے، کہیں سے کوئی حملہ آور نہ آ جائے۔ راستے میں ملنے والوں سے آپ ﷺکی شناخت چھپاکر اور اپنا تعارف کراکر لوگوں کو مطمئن کردیتے کہ کہیں کوئی مخبری کرنے والا نہ ہو۔ جب شام ڈھل جاتی اور کسی غار میں پناہ گزیں ہوجاتے تو خود جاگ کر اور آپ ﷺکو سلاکر ان کا پہرہ دیتے۔ موذی جانوروں سے آپﷺ کی حفاظت کا بندوبست کرتے، آپﷺ کے لئے کھانے پینے کا اہتمام کرتے، غرض اس طرح آپ ﷺکی خدمت کرتے ہوئے محفوظ طریقے سے مدینہ منورہ صحیح سلامت پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

اسی سفر میں آپ کو کلام الٰہی سے:’’ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ کے تسلی آمیز کلمات سننے کو ملے اور یارِغار ہونے اور صحبت رسولﷺ رکھنے کا اعزاز قرآن کریم میں ہمیشہ کے لئے درج ہوگیا، تب ہی تو حضرت عمر فاروق ؓ حضرت ابوبکرؓ سے کہا کرتے تھے کہ مجھ سے میری ساری زندگی کی نیکیاں لے لیجئے، لیکن اس ایک رات کی نیکی دے دیجیے، جب آپ غارِ ثور میں ذات نبوت کی چوکیداری کر رہے تھے، اسی نیکی کے بارے میں آنحضرت ﷺنے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے فرمایاتھا کہ عمرؓ کی تمام نیکیاں آسمان کے تاروں کے برابر ہیں، لیکن یہ نیکیاں ابوبکرؓ کی اس ایک رات کی نیکی کے برابر بھی نہیں۔

حضرت عمر فاروق ؓ ساری عمر اس تگ و دو میں رہے کہ کبھی تو وہ کسی نیکی میں حضرت ابوبکرؓ سے تقدم حاصل کر جائیں، چنانچہ غزوۂ تبوک کے موقع پر انہوں نے اپنے گھر کا نصف مال پیش کرکے اس تقدم کو حاصل کرنے کی سعی بھی کرلی، لیکن جب بارگاہ نبوت میں وہ رفیق نبوت حاضر ہوا جس سے عشق و محبت کا تاج محل استوار ہوا تھا تو پیچھے گھر کا حال، بقول صاحبزادی سیدہ اسماء ؓ، ایسا تھا کہ گویا گھر میں جھاڑو پھیر دی گئی ہو اور ایک تنکا بھی نہیں چھوڑا، ابا جان حضرت ابو قحافہؓ نابینا تھے، ان کی تسلی کے لئے گھر کے طاقچوں میں تھیلیوں کے اندر پتھر بھر کر رکھ دیے گئے ،تاکہ وہ ہاتھ لگا کر ٹٹولیں تو سکوں کا گمان ہو۔ ادھر جب اس مرد وفا سرشت سے فکر عیال کا سوال ہوا تو عشق و محبت کے راز دار نے کارخانہ عالم کے باعثِ روزگار صاحب ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ سے بقولِ اقبالؔ یوں عرض کیاـ:

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیقؓ کے لئے ہے، خدا کا رسولؐ بس

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو تا عمر جس ذاتِ نبوت کا پاس رہا، آپ ﷺکے وصال کے بعد بھی انہوں نے اس میں کمی نہ آنے دی اور آپ کے اہل بیت اطہار کے ساتھ غیر معمولی شفقت و محبت کے مظاہر بار بار پیش فرمائے،بلکہ آپ تو دوسروں سے بھی فرمایا کرتے تھے کہ: ’’حضرت محمد ﷺکا ان کے اہل بیتؓ کے سلسلے میں خیال رکھو۔‘‘ (صحیح بخاری) یعنی ان کے اہل بیتؓ کا ادب و احترام کرو اور ان (اہل بیتؓ) کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دو۔(فتح الباری، عمدۃ القاری)

ایک اور موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! مجھے اپنی رشتہ داری جوڑنے سے رسول اللہ ﷺکی رشتے داری کو جوڑنا زیادہ محبوب ہے۔(بخاری)

خلیفہ مقرر ہونے کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ حضرت علیؓکے گھر تشریف لے گئے اور وہاں بات چیت میں حضرات علیؓ و فاطمہؓ نے رسول اللہ ﷺسے اپنے تعلق کی نوعیت بیان کرنا شروع کی تو ایک ایک بات سن کر حضرت ابوبکرصدیقؓ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور آپؓ روتے جاتے۔(طبری)

حضرت ابوبکرؓ آپ ﷺکے نواسوں حضرات حسنین کریمین ؓ کو گھر سے باہر کھیلتا دیکھتےتو گود میں اٹھالیتے اور اپنے کندھوں پر سوار کرکے سیر کراتے۔ (بخاری)کسی جہاد سے مالِ غنیمت میں آپؓ کے لیے جو عمدہ و قیمتی مال آتا، اسے ان نواسوں کی نذر کر دیتے۔ (البدایہ)

آنحضرت ﷺکی رحلت کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ ان لوگوں سے خاص طور پر ملنے جایا کرتے تھے جن سے آپ ﷺاپنی زندگی میں ملا کرتے تھے، چنانچہ آپؓ نبی کریم ﷺکی انّا حضرت ام ایمن ؓ سے ملاقات کے لئے صرف اس غرض سے تشریف لے گئے کہ آپ ﷺبھی ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ وصالِ نبوت کے بعد ایک مرتبہ خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے آپ ؓنے جب یہ جملہ ادا کیاـ:ـ ’’میں نے تمہارے نبی ﷺسے پچھلے سال یہ بات سنی تھی۔‘‘ تو بے ساختہ سانحہ وفات یاد آگیا، آپ ؓ سے ضبط نہ ہوسکا تو آنکھیں بہہ پڑیں، دو تین بار خطبہ جاری رکھنے کی کوشش کی مگر خود پر قابو نہ پاسکے اور خطبہ ختم کر کے منبر سے اتر آئے۔

ایسی عشق رسالت کی شمع سے آپ کا قلب و جگر جلا کرتا تھا ،تب ہی آپؓ نے اسلام کے روزِ اول سے دعوتِ اسلام کی راہ میں صعوبتیں سہنے کے بعد اپنے دورِ خلافت میں ہر فتنے سے دین اسلام کی حفاظت فرمائی، جھوٹے مدعیانِ نبوت مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی، سجاح بنت حارث کی شرانگیزی کا قلع قمع فرمایا ۔

شاہین ختم نبوت مولانا اللہ وسایا نے ’’تذکرہ مجاہدین ختم نبوت‘‘ میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کا تذکرہ سرفہرست فرما کر یہ تاریخی حقیقت سنہرے حروف میں قلم بند کی ہےـ: ’’حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ جہاں پہلے صحابی رسول اور پہلے خلیفہ اسلام تھے، وہاں آپ پہلے محافظ ختم نبوت ہیں جنہوں نے سب سے پہلے سرکاری اور حکومتی سطح پر عقیدہ ختم نبوت کی پاسبانی کرکے منکرین ختم نبوت کا استیصال کیا۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وصال پر حضرت علی المرتضیٰؓ نے اپنے بلیغ خطبے میں آپ کو خراج تحسین پیش فرمایا، خطبے کی طوالت کے پیش نظر اس کے چیدہ چیدہ اقتباسات درج کیے جاتے ہیں جو ہمارے لئے درس بصیرت ہیںــ:

’’اے ابوبکرؓ! تم پر خدا کی رحمت ہو، تم رسول اللہ ﷺکے محبوب تھے، وجۂ نشاط تھے، معتمد تھے، راز دار تھے، مشیر تھے.... رسول اللہ ﷺکی خدمت میں سب سے زیادہ حاضر باش تھے اور اسلام پر سب سے زیادہ شفیق تھے، رسول اللہ ﷺکے صحابہ کے لئے سب سے زیادہ بابرکت اور رفاقت میں سب سے بہتر اور اچھے تھے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اسلام کی جانب سے جزائے خیر دے اور اپنے رسول کی جانب سے جزائے خیر دے... جب لوگ مرتد ہوگئے تو تم نے بہترین خلافت کی اور امر خداوندی کی تم نے ایسی حفاظت کی جو کسی نبی کے خلیفہ نے نہیں کی.... منافقین کے ناپاک جذبے اور کفار کے رنج اور حاسدین کی ناپسندیدگی و کراہت اور باغیوں کے غیظ و غضب کے باوجود تم بلا نزاع اور بلاتفرقہ خلیفہ برحق رہے.... جب لوگ رک گئے اور ٹھہرگئے تو تم اللہ کی روشنی میں چلتے رہے،پھر انہوں نے تمہاری پیروی کی تو منزل پر پہنچ گئے....وہ اپنی رہنمائی کے لئے تمہاری رائے کی جانب رجوع ہوئے تو کامیاب ہوئے، تمہارے ذریعے انہیں وہ کچھ ملا، جس کا انہیں گمان نہ تھا....تم اس پہاڑ کی طرح تھے جسے نہ شدائد ہلاسکے، نہ ہوا کے طوفان ہٹاسکے.... اور جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: آپ بدن کے اعتبار سے ضعیف تھے اور اللہ کے معاملے میں قوی تھے۔‘‘ (الریاض النضرۃ بحوالہ: صحابہ کرامؓ کی انقلابی جماعت)

Share This:

اسلامی مضامین

  • 15  مارچ ،  2025

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اکثر مقامات پر صلوٰۃ کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے۔ ’’زکوٰۃ‘‘ ارکانِ اسلام...

  • 15  مارچ ،  2025

ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم اس مبارک مہینے کی مسعود ساعتوں میں سانس لے رہے ہیں اور یہ مبارک مہینہ دنیا کو ’’صبغت اللہ‘‘...

  • 14  مارچ ،  2025

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ترجمہ! جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس...

  • 14  مارچ ،  2025

حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارے جانے کے ساتھ ہی انسانیت کے ارتقاء کا سفر شروع ہوا، اس سفر کو روحانی معراج عطا کرنے...

  • 13  مارچ ،  2025

کبھی کبھی جی چاہتا ہے، یہ دنیا اور اس کی ساری مصروفیات چھوڑ کر کسی اکیلے کونے میں بیٹھ جائیں اورسب کی نظروں سے چُھپ کر...

  • 13  مارچ ،  2025

تحریر: ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی ۔۔۔ عمل کی قبولیت کی جو علامتیں علمائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائی...

  • 12  مارچ ،  2025

قرآن کریم میں ارشاد ربّانی ہے : ’’لیکن نیکی یہ ہے کہ اللہ کی محبّت میں اپنا پسندیدہ مال رشتے داروں اور یتیموں پر‘...

  • 12  مارچ ،  2025

ماہ رمضان کی آمد آمد کا شور تھا اور یہ بابرکت مہینہ آ ہی پہنچا۔ رمضان المبارک،جس کے صبح و شام ایک بندہ مومن کو کتنا خدا...

  • 11  مارچ ،  2025

غازی محمد بن قاسمؒ نے باب الاسلام سندھ کی دھرتی پر قدم رکھا اور مختصر عرصے میں اپنی جرأت وفراست، رواداری، حسنِ سلوک اور...

  • 11  مارچ ،  2025

پیغمبرِ آخر و اعظم، سیدِ عرب و عجم، حضرت محمد ﷺ کی ازواج مطہراتؓ یعنی امت کی مقدس ماؤں امہات المومنینؓ کی حیات و خدمات...

  • 11  مارچ ،  2025

اسلامی تاریخ کا ایک روشن اور قابلِ فخر کرداریہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ’’عرب وہند‘‘ کے روابط و تعلقات زمانۂ قدیم سے...

  • 11  مارچ ،  2025

امّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قبیلہ قریش کی ایک بہت ہی باہمت، بلند حوصلہ اور زیرک خاتون تھیں۔...

  • 10  مارچ ،  2025

تاریخی طور پر روزہ ہر امت کے لئے فرض تھا۔ البتہ اس کی صورت و کیفیت اور احکام و پابندیاں جداگانہ تھیں۔ روایات سے معلوم...

  • 10  مارچ ،  2025

فطرت کا عام مفہوم یہ ہے کہ ’’وہ ایک ایسی قدرتی، پیدائشی اور طبعی خدا داد صلاحیت ہے۔ جو بہ یک وقت سادہ، معصوم ، پاک ،...

  • 09  مارچ ،  2025

ماہِ رمضان اللہ کے حضور عبادات و مناجات اور رحمت و مغفرت کا موسم بہار ہے، یہ ماہِ مبارک رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا...

  • 09  مارچ ،  2025

اُمّتِ محمّدیؐ کے لیے ماہِ رمضان ایک ایسا جامع،برکات و فضائل سے مزیّن اَن مول انعام ہے کہ جس میں خلوصِ دِل سے کی جانے...

  • 08  مارچ ،  2025

توکل کی تعریف سے پہلے توکل کے مروجہ غلط مفاہیم کو واضح کرنا ضروری ہے۔ عموماً توکل سے مراد بے عملی، اسباب سے اعراض اور عدم...

  • 07  مارچ ،  2025

مفتی عبدالرزاق نقشبندیرمضان المبارک اور قرآن کریم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ:...

  • 06  مارچ ،  2025

ارشد مبین احمدروزہ اسلام کے بنیادی 5ارکان میں سے تیسرا اہم رکن ہے۔ یہ عبادت چونکہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لئے بہت اہم...

  • 06  مارچ ،  2025

اے ہمارے خالق و مالک، ہمیں توفیق دے کہ ہم علم حاصل کریں اور عقل اور شعور کی بیداری کے ساتھ فلاح کے راستے پر قدم بڑھائیں۔ ﷲ...